شاہِ بطحا کاماہ پارہ ہے، واہ کیابات غوثِ اعظم کی سیِّدہ فاطِمہ کاپیاراہے،واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
یہ توسب اولیا کا افسرہے، ابنِ زَہرا ہے ابنِ حیدر ہے اور حَسنَین کا دُلارا ہے،واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
غوثِ اعظم ہیں شاہِ جِیلانی،پیرِلاثانی، قُطبِ رَبّانی اُن کے عُشّاق نے پکارا ہے ، و اہ کیا بات غوثِ اعظم کی
شَہرِ بغداد مجھ کو ہے پیارا، خوب دلکش وہاں کانَظّارہ میرامرشِدجو جلوہ آرا ہے،واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
مل گیا مجھ کو غوث کادامن،فضلِ ربِّ کریم سے روشن میری تقدیر کا ستارہ ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
جب کہ دنیا میں مُرشِدی آئے،بَطْنِ مادرسے ہی ولی آئے جان و دل ان پہ سب نثارا ہے،واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
میرے مرشدنے’’ لاتخف‘‘کہہ کر، دُور سب کردیا ہے خوف اور ڈر ان کا محشر میں بھی سہارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
غوث رنج و الم مٹاتے ہیں ،اُس کوسینے سے بھی لگاتے ہیں آ گیا جو بھی غم کا مارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
غوث پیروں کے پیر ہیں بیشک،اورروشن ضمیرہیں بے شک حالِ دل اُن پہ آشکارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
کیوں نہ جاؤں میں غوث پرواری، آفتیں دورہوگئیں ساری جب تڑپ کر انہیں پکارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
اُس کو من کی مُراد ملتی ہے،اُس کی بگڑی ضَروربنتی ہے جس نے دامن یہاں پَسارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
جی اُٹھے مُردے حق کی قدرت سے،حکمِ والائے ربِّ رحمت سے رب کوجب غوث نے پکارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
درد و آلام جب رُلاتے ہیں ،غوثِ اعظم مددکوآتے ہیں ہر جگہ غوث کا سہارا ہے،واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
ان کا دشمن خداکاہے مَقہُور،اس کی رحمت سے ہوگیاوہ دُور بُغض میں جس نے سر اُبھارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
غوث پر توقدم نبی کاہے،ان کے زیرِقدم ولی سارے ہر ولی نے یہی پکارا ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
ہم کو’’گیارہ ‘‘ کاہے عددپیارا،ان کی تاریخِ عُرس ہے گیارہ یوں عدد ہم کو پیارا گیارہ ہے،واہ کیا بات غوثِ اعظم کی
خوب صورت ہیں گنبد اور مِینار، ان پہ رحمت برستی ہے عطارؔ خوب دربار کا نظارہ ہے، واہ کیا بات غوثِ اعظم کی