مفتیٔ اعظم دین خیر الوریٰ جلوۂ شانِ عرفانِ احمد رضا
دید احمد رضا ہے تمہیں دیکھنا ذاتِ احمد رضا کا ہو تم آئینہ
کیا کہوں حق کے ہو کیسے تم مقتدیٰ مقتدایانِ حق کرتے ہیں اقتدا
ان کی مدحت کو میں کس سے مانگوں زباں کیا مقام ثریا بتائے ثرا
احمد نوریؔ کے ہیں یہ مظہر تمام یہ ہیں نوریؔ میاں نوری ہر ہر ادا
نور کی مے پلاتے یہ ہیں روز و شب جس کو پینا ہو آئے ہے میخانہ وا
ہیں بہت علم والے بھی اور پیر بھی آنکھوں دیکھا نہ ان سا نہ کانوں سنا
ان کا سایہ سروں پر سلامت رہے منھ سڑاتے رہیں یونہی دشمن سدا
ان کے حاسد پہ وہ دیکھو بجلی گری وہ جلا دیکھ کر وہ جلا وہ جلا
وہ جلیں گے ہمیشہ جو تجھ سے جلیں مرکے بھی دل جلوں کو نہ چین آئے گا
عاشقوں کے جگر ان سے ٹھنڈے رہیں دشمنوں پر رہیں بن کے شکل قضا
ذادعائُ الاناسی أجمعِھم اِسْتَجِبْ ربَّنا یا مُجِیْبَ الدُّعا
اور ہوں گے جنہیں تجھ سے لالچ ہو کچھ تیرے اخترؔ کو کافی ہے تیری رضا