بو تراب و شہ مرداں اسد اللہ علی میرے اقلیم تصوف کے شہنشاہ علی
معرفت تیری مجاور ہے ، بقا سجادہ سدرہ حکمت و دانش تری درگارہ علی
تیرے سجدوں کی جبیں پر تری شہ رگ کا لہو کربلا تیرے گھرانے کی کمیں گاہ علی
بند آنکھوں سے تجھے دیکھ رہا ہوں مولا چل رہی ہیں مری سانسیں تیرے ہمراہ علی
علم ہے اپنے کناروں کا نہ گہرائی کا میرے اندر کا سمندر ہے تری چاہ علی
نام لکھ لے مرا جاروب کشوں میں اپنے مجھ کو درکار ہے عزو شرف و جاہ علی
آتا جاتا رہوں میں علم کے دروازے سے میں علی کا ہوں ملازم مری تنخواہ علی