فتح کیوں حاصل نہ ہوتی خون کو شمشیر پر شمر قابض ہو گیا تھا سینہ شبیر پر
دو گواہوں کی جگہ ہیں دستخط قرآن کے کربلا میں خون سے لکھی ہوئی تحریر پر
سارے مظلوموں کی ہے آواز، آواز حسین بولتا ہے اس کا خوں ہر تیغ پر ہر تیر پر
کٹ گئے فولاد کے حلقے بھی دھاگے کی طرح پیاس نے جب ہاتھ ڈالا ظلم کی زنجیر پر
ہر نماز اس کی شہادت کے مصلّے پر پڑھوں اس کی شہ رگ کا لکھا ہے نام ہر تکبیر پر
دین جھوٹے بستہ برداروں کی زد پر آگیا ٹکڑے ٹکڑے ہو کے شیشہ گر گیا تصویر پر
اس کی قربانی مظفر کر گئی زندہ ہمیں بن گئے کتنے محل اک حسرت تعمیر پر