دین حق بچ گیا قربانیِ جاں ایسی تھی جس پہ کعبہ بھی کرے ناز اذاں ایسی تھی
ایسا دریا تھا کہ ساحل نے بھی پیا سا مارا پھول کھلتے تھے شہادت کے، خزاں ایسی تھی
کربلا میں جو وہ سر بیچنے والے آئے لوٹ لی دین فروشوں نے ، دکاں ایسی تھی
آگ اور دھوب کے مہماں تھے محمدؐ زادے سر تھا ہر تن سے جدا، جائے اماں ایسی تھی
سارا قرآن اکھڑتی ہوئی سانسوں سے لکھا تیغ سے تیز چلی ، طبع رواں ایسی تھی
آج بھی تکتا ہے حیرت سے زمانہ جس کو نظر ایسی تھی دل ایسا تھا زباں ایسی تھی
لا نہیں سکتا ابد تک کوئی ثانی جن کا نانا ایسے تھے پدر ایسا تھا ماں ایسی تھی
ان میں اے کاش تہتّرواں مظفر ہوتا مگر اس شخص کی تقدیر کہاں ایسی تھی