اجمیر بُلایا مجھے اجمیر بُلایا اجمیر بُلا کر مجھے مہمان بنایا
ہو شکر ادا کیسے کہ مجھ پاپی کو خواجہ اجمیر بلا کر مجھے دربار دکھایا
سلطانِ مدینہ کی مَحَبَّت کا بھکاری بن کر میں شہا! آپ کے دربار میں آیا
دنیا کی حکومت دونہ دولت دو نہ ثروت ہر چیزملی جامِ مَحَبَّت جو پلایا
قدموں سے لگا لو مجھے قدموں سے لگا لو خواجہ ہے زمانے نے بڑا مجھ کو ستایا
ڈوبا ابھی ڈوبا مجھے لِلّٰہ سنبھالو سیلاب گناہوں کا بڑے زور سے آیا
ہو چشم شفا اب تو شہا! سوئے مریضاں عصیاں کے مَرَض نے ہے بڑا زور دکھایا
سرکارِ مدینہ کا بنا دیجئے عاشِق یہ عرض لیے شاہ کراچی سے میں آیا
یا خواجہ کرم کیجئے ہوں ظُلمتیں کافور باطِل نے بڑے زور سے سر اپنا اٹھایا
عطارؔ کرم ہی سے تِرے جم کے کھڑا ہے دشمن نے گِرانے کو بڑا زور لگایا