مانگنے والو رب سے مانگو ۔۔۔ وہ سب کی سُنتا ہے سب کو دیتا ہے دامن بھی کم پڑ جاتے ہیں ۔۔۔ طلب سے بڑھ کر اہلِ طلب کو دیتا ہے
کیسے کیسے رنگ بھرے ہیں ذرّے ذرّے میں اُس کی خلّاقی کے کیا ہی بات ہے اُس رزاق کی کیا ہی کہنے ہیں اُس کی رزّاقی کے
ہم تو پھر اُس کے بندے ہیں ۔۔۔۔ مالک تو مار و عقرب کو دیتا ہے وُہ سب کی سُنتا ہے سب کو دیتا ہے
دھڑکن دھڑکن بندگیوں کے لہجے میں اعلانِ وفا کرتے رہنا شُکر گزاری اس کو اچھی لگتی ہے شُکر اُس کا ادا کرتے رہنا
ہیرے موتی خاک نشیں کو ۔۔ ۔ بادل دریا تشنہ لب کو دیتا ہے وہ سب کو سُنتا ہے سب کو دیتا ہے
جانیں نہ جانیں مانیں نہ مانیں جتنے بھی انسان ہیں نائب اُس کے ہیں ساری دُنیا ئیں اُس کی ہیں سارے مشرق سارے مغرب اُس کے ہیں
دن کو اُجلی اُجلی قبائیں ۔۔۔ کالی کالی چادر شب کر دیتا ہے وہ سب کی سُنتا ہے سب کو دیتا ہے