تمہیں چاہا ہے سڑسٹھ سال ابھی تو یہ دھڑکن چلتے چلتے رک گئی تو
بنام زندگی کیا تم سے مانگوں بہت ہی مختصر ہے زندگی تو
علیحدہ ہو کے قدموں سے تمہارے بہت ہی گر گیا ہے آدمی تو
چراغِ راہ ہے سایہ تمہارا عدم تک جائے گی یہ روشنی تو
لہو کی آگ پر ڈالو نہ پانی ریاضت کا سفر ہے تشنگی تو
ہمیشہ سے فقیر مصطفےٰؐ ہوں ازل سے ہیں یہ آنکھیں بھک منگی تو
جمال مصطفےٰؐ دم بھر ٹھہر جا نظر کے جام خالی ہیں ابھی تو
جبھی تو خوبصورت لگ رہا ہوں مرا حسنِ نظر ہیں آپؐ ہی تو
برتنے پر مظفر منحصر ہے یہ دنیا بھی ہے کہنے کو بُری تو