صُبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عُمر یونہی تمام ہوتی ہے
پوری کب آرزو مدینے کی شاہِ خیرالانام ہوتی ہے
مُصطَفٰے کا ہے جو بھی دیوانہ اُس پہ رَحمت مُدام ہوتی ہے
سنّتوں کا ہے جو بھی شَیدائی اُس پہ دوزخ حرام ہوتی ہے
بختورزائروں کی مکّے میں صبح، طیبہ میں شام ہوتی ہے
یاحبیبِ خدا کرم کر دو! دُور کب غم کی شام ہوتی ہے
خوب انساں کو کرتی ہے رُسوا جب زباں بے لگام ہوتی ہے
گر تکبّر ہو دل میں ذرّہ بھر سن لو جنّت حرام ہوتی ہے
مال و دولت کے عاشِقوں کی ہر آرزو ناتَمام ہوتی ہے
یاعمر! دینِ حق کے اَعدا پر تَیغ کب بے نِیام ہوتی ہے؟
پائے رُتبہ شہید کا خُلد اُس کیلئے دو ہی گام ہوتی ہے
سن لو ہر ایک نیک شخصیَّت قابِلِ اِحتِرام ہوتی ہے
اٹھو عطارؔ طیبہ چلتے ہیں اُن کی رَحمت تو عام ہوتی ہے