سَرورِ کون و مکاں ختمِ رسل شاہِ زمن تیری دہلیز پہ خم ہے مِری اقلیمِ سخن
کھولتا ہُوں جو زباں تیری ثنا خوانی کو چُوم لیتے ہیں فرشتے مِری پیشانی کو
تیرے سُورج کی کِرن غارِ حرِاسے پھُو ٹی نکہتِ گفتہء حق تیری صدا سے پھُوٹی
آدزی دَور میں تو حید سرائی کرنے ایک اِنسان بھی آیا تھا خُدائی کرنے
آدمیت کے چمن ریت کے ٹیلوں پہ کھِلے پیارکے پھُول عداوت کی فصیلوں پہ کھِلے
ایسا اُمّی کہ دِیا جِس نے نصابِ عالَم کھینچ دی تیرے غلاموں نے طنابِ عالَم
اِمتیارِ نَسب و رنگ مِٹایا تُونے ایک آئینے میں ہر عکس سجایا تُو نے
ریزہ ریزہ وہی آئینہ اس اُمّت نے کیا شِکوہ تقدیر کا ہر ٹُوٹتی صُورت نے کیا
بھائی کا بھائی نے خُوں ہنّس کے بہایا کیسے گوشت اِنسان کا اِنسان نے کھا یا کیسے
کب تِرے ساتھ اسے پیار کا ڈھب آئے گا تیرا دریائے کرم جو ش پہ کب آئے گا
پھر مُسلمان قبیلوں میں بٹا جاتا ہے تھام اسے سرورِ دیں تھام ، گرا جاتا ہے