پیاس کی راہ میں کتنے دریا پڑے کتنے بادل پڑے ہم ، جدھر سے محمدؐ کی آواز آئی ادھر چل پڑے
ان کے قدموں کو چوما تو اڑنے لگے آسمانوں پہ ہم نین یوں سج گئے حسن سے جیسے نینوں میں کاجل پڑے
دل کی گہرائیوں میں جو ہم نے محؐمد کو آواز دی ریت پر کہکشاں بچھ گئی پانیوں میں دیئے جل پڑے
آپ کے عشق نے طے کرایا ہمیں زندگی کا سفر کر گئے پار رستے میں جتنے گناہوں کے دلدل پڑے