نہ میں باغی ہوں نہ منکر نہ نکوکاروں میں نام لیوا ہوں ترا تیرے گنہگاروں میں
سر رگڑتے ہیں سلاطینِ زمانہ آکر دَبدبہ ایسا نہ دیکھا کہیں دَرباروں میں
ان کا بندہ جو بنا ہوگیا آزاد وہی ان سے جو کوئی پھرا وہ ہے گرفتاروں میں
ان کا بندہ جو ہوا خلد ہے اس کی خواہاں ان کے دشمن ہیں جہنم کے سزاواروں میں
آج جو چاہیں کہیں پیروِ نجدیِ لَعِیں کل کو کھل جائے گا اُٹھیں گے جو مکاروں میں
شرم کر مہرِ قیامت مجھے آنکھیں نہ دِکھا ان کو دیکھا ہے میں ہوں جن کے گنہگاروں میں
آنکھ تو کھول کے دیکھو ِنگہِ ِایماں سے شانِ و الشمس نظر آتی ہے رُ خساروں میں
خوبیِ بخت سے ہوجائے زِیارت جو نصیب نام لکھ جائے مرا آپ کے زَوَّاروں میں
آپ کے صدقے میں اے رُوحِ جناں جانِ چمن خرمن گل ہی نظر آتے ہیں اَنگاروں میں
اِک نبوت تو نہیں باقی ہیں جتنے اَوصاف جمع ہیں اے شہِ لولاک تیرے یاروں میں
بے طلب اپنے بھکاری کی بھرے جو جھولی ایسی سرکار بتادے کوئی سرکاروں میں
ہاتھ اُٹھا کر مرے داتا مجھے ٹکڑا دے دو اے کریم عربی میں بھی ہوں حقداروں میں
کوہِ غم کاہ نہ کیوں کر ہو جمیلؔ رضوی رحمتِ شاہِ عرب جب ہے گنہگاروں میں