مِری منزلت مِری آبرو نہ سخن سے ہے نہ قلم سے ہے مِری راہ میں ہے جو روشنی وہ تِرے نشانِ قدم سے ہے
مجھے درد اپنا اگر دیا تو سکوں بھی تو نے عطا کیا تجھے چاہنے کا شعور بھی تِرے پیار تیرے کرم سے ہے
جب اس آئنے پہ نظر پری تو مجھے بشارتِ حق ملی رُخِ مصطفیٰ سے بھی ہے وہی جو لگاؤ شمع حرم سے ہے
مِرا دل جو تیرے حضور ہو مِری پیاس غرقِ سرور ہو مِری کشت عشق ہری بھری لبِ خشک و دیدۂ نم سے ہے
مِری روح تیری غلام بھی یہ ازل سے ہی تِرے نام تھی میں یہاں ہی تیرا نہیں ہوا مِرا تجھ سے ربط عدم سے ہے
رگِ جاں سے ہے جو قریب تر وہ خدا ہے بعد خدا مگر کوئی ساتھ ہے جو قدم قدم تو اُسی کی چاپ قسم سے ہے