مِرا جہان بھی تُو، تو ہی عاقبت میری تِرے بغیر نہیں کچھ بھی حیثیت میری
مِرا جھکا ہوا سر بھی بلند ہے کتنا تِرا نشان کف پا ہے سلطنت میری
بس ایک بوند تِری ، میرے علم کا دریا بس ایک اسمِ گرامی تِرا لغت میری
تِرے خیال میں رہتا ہے گم وجود مِرا مقام کی نہیں محتاج شہریت میری
جو وقت صرف ہوا اپنے لیے وہی گھاٹا جو سانس خرچ ہو تجھ پر وہی بچت میری
جو تجھ کو دیکھ کر آئے میں وہ نظر دیکھوں جدھر سے تیری صدا آئے وہ جہت میری
میں کیا کروں تِری نسبت پہ ناز ہے مجھ کو مِرے نیاز کا حصہ ہے تمکنت میری
مظفر اُن کے غلاموں کا بھی غلام ہوں میں جہاں میں کیوں نہ بڑھے قدرو منزلت میری