مَیں کیسے مان لوں ، دِل میرا دُور آپ سے ہے مِرا تو ربط ، رہا ہی حضور آپ سے ہے
مِرے وجود میں لاکھوں چراغ جلتے ہیں یہ روشنی یہ اُجالا یہ نُور آپ سے ہے
ہر ایک فکر سے ادراک کی مہک آئے شعور آفریں ، تحت الشعور آپ سے ہے
کبوتروں کی طرح اُڑتے ہیں درود و سلام درختِ جاں پہ ہجومِ طیور آپ سے ہے
تصوّر آپ کا ، دیدارِ حق کرائے مجھے نشیبِ عِشق مرا کوہِ طُور آپ سے ہے
یہی ثبوتِ حیاتِ پس ِ فنا ہے بہت کہ ساری زندگیوں کا ظہور آپ سے ہے
لکھا تھا آپ ہی کا نام ازل کے ماتھے پر مسلّمہ ہے تو یومِ نشور آپ سے ہے
بہت اثر ہے ابو بکر کا مظفّر پر کُچھ ایسی اس کو بھی نسبت ضرور آپ سے ہے