جو روشنی حق سے پھوٹ کر جسم بن گئی ہے، وہی نبی ہے تمام تخلیق کا جو کہ وارِ مرکزی ہے، وہی نبی ہے
وجود آدم سے تابہ عیسیٰ ہر اک زمانہ ہے مبتدی سا صدی صدی جس کے عہد سے درس لے رہی ہے، وہی نبی ہے
خدا کی رحمت ہے نام اُس کا فلاحِ انساں پیام اُس کا ڈھلی ہوئی اس پیام میں جس کی زندگی ہے، وہی نبی ہے
بشر ہے وہ یا کلام باری میں اُس کی ہر اک ادا کا قاری تمام قرآن کی جو تصویر معنوی ہے، وہی نبی ہے
بسائی دنیائے اندرونی، نبی مسیحا، نگاہِ خونی درستی نقشہ خیالات جس نے کی، وہی نبی ہے
جو اُس گلی کے ایاز ٹھہرے وہ لوگ تاریک ساز ٹھہرے کمال سالاریِ جہاں جس کی پیروی ہے، وہی نبی ہے
قدم نشانِ قدم سے بالا وجود اُس کا عدم سے بالا جو اول کائنات ہوکر بھی آخری ہے، وہی نبی ہے
نہ صرف وہ اس جہاں سے گزرا وہ آسماں آسماں سے گندا نگاہِ سائنس داں بھی جس پر لگی ہوئی ہے، وہی نبی ہے
جو کوئی امرت بھی دے نہ چکھنا، لگن مظفر اُسی کی رکھنا سنواری جس نے تیری دنیا و دیں وہی ہے، وہی نبی ہے