جس کو چاہا میٹھے مدینے کا اس کو مہمان کیا جس پر نظرِکرم فرمائی اس پر یہ احسان کیا
طالبِ دنیا نے تو طلب لندن ہے کیا جاپان کیا دیوانوں نے حق سے طلب طیبہ کا ریگستان کیا
جن کا ستارا چمکا ان کو طیبہ کا پیغام ملا بختوروں نے در پر آکر بخشش کا سامان کیا
شکر ادا ہو کیونکر تیرا پیارے نبی کی اُمّت میں مجھ سے نکمے کو بھی پیدا تو نے اے رحمٰن کیا
شاہِ مدینہ دین کی دولت اپنی الفت بھی دی اور اپنی غلامی مجھ کو عطا کی تُو نے بڑا احسان کیا
دورِجہالت تھا ہر سو جب کفر کی ظلمت چھائی تھی تم نے حیوانوں جیسے لوگوں کو بھی انسان کیا
حق کی راہ میں پتھر کھائے خوں میں نہائے طائف میں دین کا کتنی محنت سے کام آپ نے اے سلطان کیا
جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شَہرِمکہ میں عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان کیا
رونا مصیبت کا مت رو تُو پیارے نبی کے دیوانے کرب و بلا والے شہزادوں پر بھی تُو نے دھیان کیا
پیارے مبلغ معمولی سی مشکل پر گھبراتا ہے دیکھ حسین نے دین کی خاطر سارا گھر قربان کیا
وہ دنیا کی رنگینی میں کھویا رہا برباد ہوا جس نے عشقِ نبی سے دل کو خالی اور ویران کیا
شاہ کو یہ معراج کی شب کتنا اونچا اِعزاز ملا آپ نے تو چشمانِ سر سے دیدارِ رحمٰن کیا
آہ! مقدَّر عرصہ ہوا عطارؔ مدینے جا نہ سکا ہائے! اِسے حالات نے جکڑا یوں خونِ ارمان کیا