غم حبیب کو سینے میں پال رکھا ہے یہی نجات کا رستہ نکال رکھا ہے
تری مثال زمانےمیں ہو نہیں سکتی میرے خدا نے تجھےبے مثال رکھا ہے
ہر آڑے وقت میں فرمائی دستگیری مری حضور نے میرا کتنا خیال رکھا ہے
ہر ایک سمت عیاں ہیں کہاں کہاں دیکھیں ترے جمال نے حیرت میں ڈال رکھا ہے
میری حیات نے ان کا خیال رکھا ہے خدا کا شکر ہے گدڑی میں لعل رکھا ہے
ہم ان کو حشر میں کیا منہ دکھائیں گے نیر ازل سے ذہن میں بس یہ سوال رکھا ہے