درِ نبی سے پلٹ رہا ہوں زمین ہے میرے سر پہ جیسے ٹہر گئی روح در پہ جیسے بدن کے ہمراہ چل پڑا ہوں درِ نبی سے پلٹ رہاہوں
سکون چھینا ثواب چھینا نظارۂ لاجواب چھینا فرائ دنیوی نے مجھ سے درِ رسالت مآب چھینا رُواں رُواں آپ کو پکارے کٹیں رگ جاں سے موڑ سارے حرم کو مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہوں درِ نبی سے پلٹ رہا ہوں
میں یوں دیار نبی سے نکلا کہ جیسے شعلہ کلی سے نکلا لیے ہوئے رحمتوں کے سائے میں حلقۂ روشنی سے نکلا اگرچہ آیا ہوں سمندر مگر بڑی تشنگی ہے اندر میں خوش ہوں لیکن بجھا بجھا ہوں درِ نبی ﷺ سے پلٹ رہا ہوں
دوبارہ جانے کی آرزو ہے کہ خود کو پانے کی آرزو ہے جو حج پہ احرام باندھتے ہیں پہن کے آنے کی آرزو ہے جو بُوئے آقا کی دے گواھی اُسی کفن میں مروں الٰہی تڑپ ہوں، فریاد ہوں دعا ہوں نبی نبی پھر پکارتا ہوں
مجھے مِرے ذہن نے ڈبویا بہت ہی، کم مائیگی پہ رویا تاثر اپنا بیان کرکے سخنوری کا بھرم بھی کھویا نہ لاج رکھی قلم کی میں نے کیا تھا محسوس جو بھی میں نے کہاں مظفر وہ لکھ سکا ہوں نبی نبی پھر پکارتا ہوں