بن کر فقیر جاؤ سرکار کی گلی میں دل کی مرادیں پاؤ سرکار کی گلی میں
ایسا کریم کوئی تم کو نہ پھر ملے گا بیٹھے رہو گداؤ سرکار کی گلی میں
جیسا بھی زخم ہوگا اچھا ضرور ہوگا خاکِ شفا لگاؤ سرکار کی گلی میں
دنیا و دیں کی ہر اک نعمت ملے گی آؤ فقیرو آؤ سرکار کی گلی میں
جنت میں رہنے والی حوروں سے کوئی کہہ دے اک تم بھی گھر بناؤ سرکار کی گلی میں
سنتا نہیں تمہاری کوئی اگر کہانی دل کھول کرسناؤ سرکار کی گلی میں
توہین عشق ہے یہ کوئی اور یاد آۓ سب کچھ ہی بھول جاؤ سرکار کی گلی میں
میں سو گیا ہوں شاید خوابوں میں ہی وہ آئیں مجھ کو نہ تم جگاؤ سرکار کی گلی میں
مرکر بھی میری میت ناصرؔ یہی کہے گی تربت میری بناؤ سرکار کی گلی میں