اپنے محبوب کے ،عِشق میں ڈوب کے ‘ مَیں کمالات ادراک دیکھا کروں اِس جہاں سے سفر ، کر گئے وہ مگر ، اُن کو زندہ تہِ خاک دیکھا کروں
نقشِ کونین میں رنگ اُنھوں نے بھر ے ‘ اُن کا سایہ فصیل ِ عدم سے پرے اُن کی آہٹ کے دریا میں بہتے ہُوئے ‘ وقت کے برگ و خاشاک دیکھا کروں
اُن کی معراج اِنساں کی معراج تھی، اُن کے ماتھے کی ہر اِک شکن تاج تھی ، اُن کی دہلیز پر‘ رکھ دیا جس نے سر ، اُس کے قدموں میں افلاک دیکھا کروں
ذہن جب اُن کی یادیں پرونے لگے ، آنّسووں میں تصوّر بھگو نے لگے رُوح میں اِک چراغاں سا ہو نے لگے ، تن پہ خوشبو کی پوشاک دیکھا کروں
ایسا آئینہ ہوں عِشقِ سرکار کا ، اس طرف جس میں منظر ہے اُس پار کا دیکھنا چاہوں جب ، عکسِ شاہِ عرب ‘ اپنے ہی زخم کے چاک دیکھا کروں
فکرِ بخشش نہیں ہے مظفّؔر مجھے ، بخش دے گا خُدا روزِ محشر مُجھے بس یہ ڈھونڈا ہے حل‘ مَیں غریبِ عمل ، سُوئے سُلطان لولاک دیکھا کروں