یا حاجی وارث علی پیا مری جنت تیری گلی پیا
ترا عشق ہے دستر خوان مرا ترے ٹکڑوں پر میں پلی پیا
مرےاندر بھڑکے آگ تری مرا شعلہ تیری کلی پیا
باندھی ہے تیری آہٹ سے تو سانس ٹھمک کر چلی پیا
تری خاکِ قدم بھی ایسی ہے جیسے مصری کی ڈلی پیا
جو شمعِ محبت ہاتھ میں تھی نس نس کے اندر جلی پیا
ترے خادم کے بھی خادم کا مرا رُواں رُواں اردلی پیا
ترے زانو پر ہے سر میرا مری قسمت کتنی بھلی پیا
مری عقل بھی ہے منھ زور بہت مری وحشت بھی منچلی پیا
تھمتے ہی نہیں آنسو میرے میں کتنی پھولی پھلی پیا
ترے نقش قدم پر قدم رکھوں ترے علی پیا مرے علی پیا
ترے ہاتھ پہ ہاتھ ہیں لاکھوں کے تو ولیوں کا ہے ولی پیا