سُنّیوں کے دل میں ہے عزّت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی آج بھی ممنون ہے ملّت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
آپ عَلّامہ و مفتی اور تھے شیخُ الحدیث آج بھی ہے قلب میں عظمت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
صرف عالِم ہی نہیں تھے آپ عالِم گر بھی تھے مرحبا تھی خوب عِلمیَّت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
بے عَدَد عُلما نے زانوئے تَلَمُّذ تہ کئے کیا بیاں ہو شانِ عِلمیَّت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
اِنْ شَآءَ اللہ کام آئے گی مجھے روزِ جزا قَدر دانی علم کی اُلفت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
اِنْ شَآءَ اللہ وہ بروزِ حشر بخشا جائے گا جس کو حاصل ہو گئی نسبت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
وہ مجسَّم عاجِزی تھے اور سراپا سادَگی اِس لئے تو دل میں ہے ہَیبت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
چارپائی اور تکیہ اور لوٹا جانَماز تھی سراپا سادہ ہی طِینَت’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
چارپائی پر وہ ہوتے اورہم بھی رُوبرو یاد آتی ہے ہمیں صحبت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
آئے دن خدمت میں آکر ہم مسائل پوچھتے یاد آتی ہے ہمیں صحبت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
نُکتہ دانی، مُوشِگا فی اور گُل افشانیاں یاد آتی ہے ہمیں صحبت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
خَندہ پیشانی تبسُّم رَیز میٹھی گفتگو یاد آتی ہے ہمیں صحبت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
ان کو سینے سے لگایا مصطَفٰے نے خواب میں قابِلِ صَد رشک ہے قسمت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
بندۂ بدکار ہوں ! افسوس میں بیکار ہوں کچھ نہ مجھ سے ہو سکی خدمت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
سب مریدوں کے لئے سارے محبّوں کے لئے سانِحہ جاں سَوز تھا رِحلت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
آخِری دیدار کے وقت آنکھ میری رو پڑی دیکھ کر زیرِ کفن صورت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
یاالٰہی! واسِطہ تجھ کو رسولِ پاک کا نور سے معمور کر تُربَت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
واسِطہ غوث و رضاکا اے خدائے مصطَفٰے خواب میں مجھ کو دکھا صورت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
اُن کے فیضِ خاص سے عطارؔبھی ہے فیضیاب اِس پہ کچھ زائد ہی تھی شَفقت ’’ وقارُ الدِّین‘‘ کی
تُو تَو ہے عطارؔ بداطوار، وہ عالی وقار کیا لکھے گا مَنقَبت حضرت وقارُ الدین کی