جو ڈٹ گئے یزید کی فوجوں کے سامنے اُکھڑے ہوئے پڑے تھے وہ خیموں کے سامنے
پانی کے ایک گُھونٹ کی قیمت تھی زندگی لگ ہی گیا ہجوم دکانوں کے سامنے
ٹوٹا ہوا پڑا تھا غرورِ یزیدیت شہزادگانِ دین کی لاشوں کے سامنے
حورانِ خلد کوثر و تسنیم لائی تھیں اللہ کی رضائیں تھیں پیاسوں کے سامنے
صبر حسین اصل میں معراجِ صبر تھا لاشوں کے ڈھیر لگ گئے آنکھوں کے سامنے
ان کے سروں سے چادریں تک چھین لی گئیں نکلیں نہ رات کو بھی جو تاروں کے سامنے
منظور تھا یہی مرے پروردگار کو انساں سے کتنا خوش تھا فرشتوں کے سامنے
بجھ کر بھی جگمگا دیا سارے جہان کو ٹھہریں نہ آندھیاں بھی چراغوں کے سامنے