مری نظر مرے دل میری جاں کا مالک تو مرے سکوت کا میرے بیاں کا مالک تو
مجھے تو لمحہ آئندہ کا بھی علم نہیں نشاں کی تجھ کو خبرٗ بے نشاں کا مالک تو
قدم قدم تری تو فیقٗ رہ نما میری رہِ یقیں سے گزرتے گماں کا مالک تو
عدم وجود تری راہ کے مسافر ہیں جہاں کوئی نہیں پہنچا وہاں کا مالک تو
بہت قریب سے دیکھا ہے تجھ کو سجدے میں نماز تیرے لئے ہے اذاں کا مالک تو
تیری رضا کے بغیر ایک سانس نا ممکن مری " نہیں" ترے قبضے میں "ہاں" کا مالک تو
برستی آنکھ کے پیچھے گھٹائیں ہیں تیری دلوں میں بکھری ہوئی کہکشاں کا مالک تو
تیرے خیال سے آباد میری تنہائی رگوں میں چلتے ہوئے کارواں کا مالک تو
تمام رنگ بھرے کائنات میں تو نے خوشی کا رنج کا سود و زیاں کا مالک تو