میلاد نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ یہاں ہوتا میلاد نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ عیاں ہوتا
میلاد نہ ہوتا تو سورج نہ چمک ہوتی میلاد نہ ہوتا تو گلشن نہ مہک ہوتی
میلاد نہ ہوتا تو تارے نہ سحر ہوتی کوئی نہ بشر ہوتا، نہ روحِ بشرہوتی
میلاد نہ ہوتا تو دھرتی نہ فلک ہوتے میلاد نہ ہوتا تو حوریں نہ ملک ہوتے
میلاد کےہونے نےتخلیق کا دَر کھولا میلاد کےہونےنےہرچیزمیں رس گھولا
یلاد کے ہونے نے ہونے کا یقیں بخشا میلاد کے ہونے نے گمراہ کو دیں بخشا
میلاد نے بخشی ہے انسان کو زیبائی میلاد نے بخشی ہے ہر آنکھ کو بینائی معبود اکیلا تھا عابد نہ عبادت تھی
مسجود اکیلا تھا سجدہ نہ اطاعت تھی میلاد نےجیون کا میلہ یہ سجایا ہے
تخلیقِ محمدؐ نے دنیا کو بسایا ہے یہ دھوپ اُسی کی ہے سایہ بھی اسی کےہیں
گلیاں بھی اسی کی ہیں، رستےبھی اسی کےہیں تارے بھی اسی کے ہیں پررنگ دھنک اس کی
ہرسمت ہےفطرت کےلہجےمیں کھنک اس کی کلیوں نے چٹک کر یہ میلاد منایا ہے
تاروں نے چمک کریہ میلاد منایا ہے جبریلؑ نے جھنڈوں سےمیلاد منایا ہے
تاریخ نےصدیوں سے میلاد منایا ہے میلاد منایا ہے لمحات نےرُک رُک کے
میلاد منایا ہے خودکعبےنےجھک جھک کے میلاد منانے کو حوروں کی قطار آئی
سیرت کو منانے کی صورت بھی کہاں ہوتی میلاد نہ ہوتا تو سیرت بھی کہاں ہوتی
میلاد کی دھومیں تو خود رب نےمچائی ہے میلاد سے لرزاں ہو؟ جلنا ہے تو جل جاؤ
اُس نور سے مولا نے دھرتی کو بنایا ہے گر نور کے منکر ہو دھرتی سے نکل جاؤ