میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں، میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے میں مدینے کی جانب نہ کیسے کھچوں، میرا دین اور دنیا مدینے میں ہے
مکہ میں عمرہ کرنا تھا سو کر لیا جس قدر اس کا دم بھرنا تھا بھر لیا اب مدینے سے دوری گوارا نہیں، عاشقوں کا تو کعبہ مدینے میں ہے
پھر مجھے موت سے کوئی خطرہ نہ ہو، موت کیا زندگی کی بھی پروہ نہ ہو کاش سرکار اک بار مجھ سے کہیں، اب تیرا مرنا جینا مدینے میں ہے
سرور دو جہاں سے دعا ہے میری ہاں بدو چشمِ تر التجا ہے میری کہ ان کی فہرست میں میرا بھی نام ہو، جن کا روز آنا جانا مدینے میں ہے
عرش اعظم سے اس کی بڑی شان ہے، روضۂ مصطفیٰ اس کی پہچان ہے جس کا ہم پلہ کوئی محلہ نہیں، ایک ایسا محلہ مدینے میں ہے
جب نظر سوئے طیبہ روانہ ہوئی، ساتھ دل بھی گیا ساتھ جاں بھی گئی میں منؔیر اب رہوں گا یہاں کس لئے، میرا سارا اثاثہ مدینے میں ہے