فراق مدینہ میں دل رو رہا ہے جگر ٹکرے ٹکرے ہوا جارہا ہے
میری آنکھ سے چھینا طیبہ کا منظر میں کس بات کا تو نے بدلہ لیا ہے
دکھایا ہے دن یہ مقدر نے مجھ کو نہ شکوہ کسی سے نہ کوئی گلہ ہے
میرے دل کے ارماں رہے دل ہی دل میں یہی غم میرے دل کو تڑپا رہا ہے
سکوں تھا مجھے کوچہ مصطفیٰﷺ میں وطن میں میرا سب سکوں لٹ گیا ہے
نہ دنیا کی فکریں نہ غم تھا وہاں پر یہاں آکے دل آفتوں میں پھنسا ہے
میں لفظوں میں کیسے بتا دوں کسی کو کہ کیا کیا مجھے آج یاد آرہا ہے
پہاڑوں کی دلکش قطاروں کے جلوے وہ منظر مجھے یاد آرہا ہے
انہیں چومنا ہاتھ لہرا کر پیہم وہ لمحہ مجھے یاد آرہا ہے
عقیدت سے خاک مدینہ اٹھا کر اسے چومنا آج یاد آرہا ہے
کبھی چلتے چلتے اٹھا کر تنکے سجا لینا داڑھی میں یاد آرہا ہے
کبھی دید سرور کی حسرت میں منبر کو تکنا وہ چھپ چھپ کر یاد آرہا ہے
حسین وہ پیاری وہ جنت کی کیاری وہاں بیٹھنا آج یاد آرہا ہے
کبھی دیکھ کر سبز گنبد کا منظر جھکانا نظر آج یاد آرہا ہے
کبھی حاضری کے لیے گھر سے چل کر کھڑے ہونا قدموں میں یاد آرہا ہے
کبھی روتے روتے کبھی دل ہی دل میں سنانا انہیں حال یاد آرہا ہے
مدینے سے میں دور آکر پڑا ہوں یہ جینا بھی کیا جینا بھلا ہے
بچھڑ کر عبید رضا تیرے در سے پریشان ہے خوار ہے غمزدہ ہے
بلا لو عبید رضا کو بلا لو اگرچہ نکما ہے مگر وہ تیرا ہے