آمِنہ عطاریہ حج کو چلے اُمّید ہے گُنبدِ خَضرا کی دید اس کی بِلا شک عید ہے
مرحبا تم کو مبارَک ہو مدینے کاسفر فَضلِ رب سے تم پہ نازِل رَحمتیں ہوں ہر ڈَگر
یاخُدا! آسان ہو اِس کیلئے حج کا سفر ذَوق بڑھتا ہی رہے اِس کا خدائے بحروبر
رونے والی آنکھ دے اور چاک سینہ کر عطا یارب! اس کو الفتِ شاہِ مدینہ کر عطا
ذرّے ذرّے کا ادب اللہ اِس کو ہو نصیب از طفیلِ سیِّدی احمدرضا ربِّ مُجیب!
امتِحاں درپیش ہو راہِ مدینہ میں اگر صَبر کر تُو صَبر کر ہاں صَبر کر بس صَبر کر
کوئی دُھتکارے یا جھاڑے بلکہ مارے صَبر کر مت جھگڑ ، مت بُڑبُڑا ، پا اَجْر رب سے صبر کر
راہِ جاناں کا ہراِک کانٹا بھی گویا پھول ہے جوکوئی شِکوہ کرے اُس کی یقینا بُھول ہے
تم زَباں کا آنکھ کا ’’قُفلِ مدینہ‘‘ لو لگا ورنہ بڑھ سکتا ہے عِصیاں کا وہاں بھی سِلسلہ
گفتگو صادِر نہ کچھ بے کار ہو اِحرام میں لب پہ بس لبّیک کی تکرار ہو اِحرام میں
جب کرے تُو خانۂ کعبہ کا رو رو کر طواف یہ دُعا کرنا خُدا میرے گُنہ کردے معاف
تیرا حجّن! جس گھڑی ہو داخِلہ عَرفات میں کرنا نادِم ہوکے تُو آہ وبُکا عَرفات میں
حالتِ اِحرام میں یادِ کَفَن ہو قَبْر ہو یاد کر عَرفات میں تُو حشر کے میدان کو
نو کو جب عَرفات میں حاجی اِکٹھّے ہوں سبھی بھول مت جانا دعاؤں میں مجھے تُو اُس گھڑی
جس گھڑی کرنے لگے قُرباں مِنٰی میں جانور تُو تَصوُّر ہی میں اپنے نَفْس کو بھی ذَبْح کر
حاضِری ہو جب مدینے میں تمہاری حَجَّنو! عشقِ شہ میں خوب کرنا آہ و زاری حَجَّنو!
لے کے حجّن! بارگاہِ مصطفٰے میں میرا نام دَست بَستہ عرض کرنا ان سے رو رو کر سلام
رو کے کرنا میرے ایماں کی حفاظت کی دُعا دے شہادت کاشَرَف مجھ کو مدینے میں خدا
اِس کا حج یارب! نبی کا واسِطہ کر لے قَبول دوجہاں میں اِس پہ برسا یاخُدا رَحمت کے پھول
اپنے مُنہ سے خود کو حجّن تُو کبھی کہنا نہیں بے ضرورت اپنی نیکی کا بیاں اچّھا نہیں
ہر برس حج کا شَرَف پاؤ مدینے جاؤ تم اور بقیعِ پاک میں آخِر میں مَدْفَن پاؤ تم
کرنا تم عطارؔ کے حق میں دعائے مغفِرت اِس جہاں میں عافِیت ہو اُس جہاں میں عافِیت