کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں