مبارک ہو وہ شہِ پردے سے باہر آنے والا ہے گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
چکوروں سے کہو ماہِ دل آرہا ہے چمکنے کو خیر ذروں کو دو مہر منور آنے والا ہے
فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے، پائیں گے کہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے
کہو پروانوں سے شمع ہدایت اب چمکتی ہے خبر دو بلبلوں کو وہ گل تر آنے والا ہے
کہاں ہیں ٹوٹی اُمیدیں کہاں ہیں بے سہارا دل کہ وہ فریاد رس بیکس کا یاور آنے والا ہے
ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کا غریبوں کی مدد بیکس کا یاور آنے والا ہے
بر آئیں گی مرادیں حسرتیں ہو جائیں گی پوری کہ وہ مختارِ کل عالم کا سرور آنے والا ہے
مبارک درد مندوں کو ہو مژدہ بیقراروں کو قرارِ دل شکیبِ جانِ مضطر آنے والا ہے
گنہ گاروں نہ ہو مایوس تم اپنی رہائی سے مدد کو وہ شفیعِ روزِ محشر آنے والا ہے