ذرہ کرے خورشید کی مدحت تو عجب کیا پائیں مرے لب نعت کی رفعت تو عجب کیا
یہ چاند، یہ سورج، یہ ستارے تہہِ افلاک کرتے ہیں طوافِ درِ رحمت تو عجب کیا
جب قبر میں پرسش کے لیے آئیں نکیرین مل جاۓ بس اک نعت کی مہلت تو عجب کیا
جس دم وہ غلاموں کو پکاریں سرِ محشر مجھ پر بھی رہے چشمِ عنایت تو عجب کیا
ویسے تو کہاں قابلِ بخشش مرے اعمال لیکن وہ کریں میری شفاعت تو عجب کیا
ٹھہرے وہ بس اک اشکِ ندامت کے برابر ہو خد کی بس اتنی سی قیمت تو عجب کیا
جو ڈھانپ لے سب اپنی غلاموں کی خطائیں مل جاۓ وہ اک چادرِ رحمت تو عجب کیا