یہ اہتمام اندھیروں کے رد میں رکھّا گیا چراغ اِسم محمّد لحد میں رکھّا گیا
مجال ہے کہ ہوئی ہو کہیں کمی بیشی وہ نُور معجزہ ء صد بہ صد میں رکھّا گیا
کہا گیا کہ پُکارو تو کہہ کے 'اُنظُرنا جو بے اَدب تھے انہیں ایک حد میں رکھّا گیا
وہ جس نے آدم و حوّا کو بنتے دیکھا تھا اُسے شروع سے حُسن ابد میں رکھّا گیا
کچھ اور سہل ہُوئیں اگلی منزلیں مجھ پر وظیفہ ء رُخ آقا سند رکھّا گیا
مجھے سُنائی گئی یوں شفاعتوں کی نوید منافقوں کو عذابِ حسد میں رکھّا گیا
عطا ہُوا تھا وہیں سے مزاج رُفت گَری یہ مرتبہ تھا جو بس میری مد میں رکھّا گیا