یہ اہتمام اندھیروں کے رد میں رکھا گیا چراگ اسمِ محمد لحد میں رکھا گیا
مجال ہے کہ ہوئی ہو کہیں کمی بیشی وہ نور معجزۃ صد بہ صد میں رکھا گیا
کہا گیا کہ پکارو تو کہہ کے "انظرنا" جوبےادب تھے انہیں ایک حد میں رکھا گیا
وہ جس نے آدم و حوا کو بنتے دیکھا تھا اسے شروع سے حُسنِ ابد میں رکھا گیا
کچھ اور سہل ہوئیں اگلی منزلیں مجھ پر وظیفۃ رُخ آقا سند میں رکھا گیا
مجھے سنائی گئی یوں شفاعتوں کی نوید منافقوں کو عذابِ حسد میں رکھا گیا
یہ پانچ اسم بنے مدعاۓ بسم اللہ خدا کے ساتھ ہر عدو میں رکھا گیا