ان کی چوکھٹ ہوتو کاسہ بھی پڑا سجتا ہے در بڑا ہو تو سوالی بھی کھڑا سجتا ہے
شہنشاہوں کے مقدر میں کہاں زیبائی جس قدر ان کی غلامی کا کڑا سجتا ہے یہ غلامی کہیں کم تر نہیں ہونے دیتی اّن کا نوکر ہوں تو شاہوں میں کھڑا سجتا ہے
سرورِ دیں کے مصلے پہ خدا جانتا ہے مرتضیٰ پیچھے ہو صدیق کھڑا سجتا ہے
ایسے آقا ہوں تو لازم ہے غلامی پہ غرور ایسی نسبت ہو تو پھر بول بڑا سجتا ہے
کان میں حّر کے مقدر نے یہ سرگوشی کی تو نگینہ ہے انگوٹھی میں جڑا سجتا ہے
مولیٰ شبّر سے خدا جانے سخی مہدی تک گلشنِ زہرا کا ہر پھول بڑا سجتا ہے
دیکھ کر بولے یہ صدیق و عمر طیبہ میں دوشۂ سرکار پہ شبیر پڑا سکتا ہے
مجھ سے کہتے ہیں یہی اہل محبت سرور نعت کا نغمہ ترے لب پہ بڑا سجتا ہے