ان کی یادوں کو جو سینے میں بسا لیتے ہیں اپمے دامن میں انہی آقا چھپا لیتے ہیں
دور رہتے ہیں مدینے سے جو آقا کے غلام اپنے سینوں کو مدینہ وہ بنا لیتے ہیں
یاد آتی ہیں مدینے کی بہاریں جب بھی چشم بے چین سے چند اشک بہا لیتے ہیں
جن کے ہونٹوں پہ مہکتی ہے درودوں کی صدا خلد میں اپنی جگہ اوربڑھا لیتے ہیں
جب بھی آتا ہے نظر نقش کف پا ان کا اپنی گردن کو وہیں ہم تو جھکا لیتے ہیں
ان کے دینے کا ہے انداز نرالا سب سے لینے والوں سے یہ پوچھو کہ وہ کیا دیتے ہیں
ان کی عظمت کے پرستار یہ انساں ہی نہیں وہ تو پتھر کو بھی گویا سکھا دیتے ہیں
مال و دولت کی نہیں شرط وہاں پر ناصر گس کو چاہیں وہ مدینے میں بلا لیتے ہیں