نبیؐ سے دل کو تسلی دلا کے لوٹ آیا دوبارہ جانے کوممکن بنا کے لوٹ آیا
نظارے دیکھ کےاس کی سخا کے لوٹ آیا کھلایا اس نے بہت کچھ، میں کھا کے لوٹ آیا
کچھ اتنا لُوٹا کہ کاسے بھرا کے لوٹ آیا جنوں میں لوٹا، خرد کو لُٹا کے لوٹ آیا
سنا تھا سنتے ہیں سرکارؐ اپنے بندوں کی سو سننے والے کواپنی سنا کے لوٹ آیا
سنا تھا شہرِ مدینہ ہے نور کا مہبط گلی گلی میں گیا، آزما کے لوٹ آیا
پتا تھا مجھ کو کہ ہے مجھ کو لَوٹنا اِک دن مزے اُڑا کےوہاں کی فضا کے لوٹ آیا
نبی کے شہر میں بس جانا میرے بس میں نہ تھا تھا بس میں اشک بہانا، بہا کے لوٹ آیا
غریقِ رنج و الم ہوکے جی رہا تھا یہاں مدینہ جا کے ہر اِک غم بُھلا کے لوٹ آیا
کرم حضورؐ کا احمدؔ تری تلاش میں ہے تو جب سے بابِ کرم کھٹکھٹاکےلوٹ آیا