نعت گوئی سے مجھے گرچہ بہت رغبت رہی زندگی بھر نعت کہنے کی مگر حسرت رہی
اُن کی چوکھٹ پر تصور میں گزاری ایک شام گفتگو شب بھر ملائک میں مِری بابت رہی
آپؐ سے بڑھ کر دیا کس نے محبت کو فروغ رنج کے بدلے دعائیں، آپؐ کی عادت رہی
آپؐ کے ایثار و صبر وضبط سے پا کر جلا مجھ کو عُسرت میں بھی حاصل بے کراں ثروت رہی
مجھ سے عاصی پر کرم فرمائیوں کی حد نہیں اور اس پر اک زمانے کو بڑی حیرت رہی
خاک زادوں پر عیاں کیسے ہو عظمت آپؐ کی آپؐ کے قدموں تلے تو عرش کی وسعت رہی
اک سے اک بڑھ کر کھلے عاطفؔ ثنا خوانی کے پھول پر کسے شانِ نبیؐ سے کچھ ذرا نسبت رہی