اک یہی سہارا یے اس جہاں میں جینے کا بات کر مدینے کی ذکر کر مدینے کا
وہ تجھے بچائیں گے پار بھی لگائیں گے ان پہ چھوڑ دے کشتی غم نہ کر سفینے کا
کیوں بھٹکتا پھرتا ہے پوچھ اپنے مرشد سے وہ بتائیں گے تجھ کو راستہ مدینے کا
چھوڑکر قدم ان کے اڑ نہ تو ہواؤں میں راستہ یہیں سے ہے قربِ حق کے زینے میں
صحن گلستاں میں بھی گلوں کی جاں میں بھی ہر طرف نمایاں ہے معجزہ پسینے کا
آپ کے قدم جب سے آۓ ہیں مدینے میں ذرہ ذرہ روشن ہے آج بھی مدینے کا
اے علیم چل توبھی راہ لے مدینے کی بس وہیں سے ملتا ہے راز ہر خزینے کا