ہو جاتے ہیں خود رستے ہموار مدینے کے بلواتے ہیں جب شاہ ابرار مدینے کے
کیوں کر نہ فلک کو بھی اس شہر پہ رشک آئے بستے ہیں مدینے میں مختار مدینے کے
آنکھوں کو عطا ہوگا سرمایۂ بینائی بخشیں گے جلا دل کو انوار مدینے کے
برسوں کی عبادت کا حاصل ہے ہر اک لمحہ سو سال پہ بھاری ہیں دن چار مدینے کے
اس دور مقدس کی یادوں کے تصور میں دیکھیں گے ذرا چل کر بازار مدینے کے
اے بخت رسا خوش ہو بخشش کی گھڑی آئی وہ دیکھ نظر آئے مینار مدینے کے
بہتر ہے کسی گل سے کانٹا رہ طیبہ کا جنت سے حسیں تر ہیں گلزار مدینے کے
اپنوں کا مقدر ہے عرفان کی یہ دولت غیروں پہ نہیں کھلتے اسرار مدینے کے
تم لاکھ مٹا ڈالو دھرتی سے انہیں لیکن محفوظ ہیں ذہنوں میں آثار مدینے کے
آقا کی ثناؤں میں کٹ جائے سفر اچھا مل جائیں اگر ساتھی دو چار مدینے کے
اے دیو ہوس مجھ پر کیا زور چلے تیرا رہتے ہیں مرے دل میں دل دار مدینے کے
پھر اس کو نہیں رہتی حسرت کسی منظر کی ہو جائیں جسے حاصل دیدار مدینے کے
ہے طرفہ مزاج ان کا دیدار علاج ان کا عیسیٰ سے نہ اچھے ہوں بیمار مدینے کے
یہ آب نجس اٹھوا یہ جام و سبو لے جا پیتے ہیں مدینے کی مے خوار مدینے کے
اس آس پہ بیٹھا ہوں مدت سے نصیرؔ اب تک شاید کبھی بلوا لیں سرکار مدینے کے