ہیچ ہیں دونوں جہاں میری نظر کے سامنے میں کھڑا ہوں روضہء خیرالبشرؐ کے سامنے
جھلملانے لگ گئیں روضے کی روشن جالیاں اک نیا منظر ہے میری چشمِ تر کے سامنے
اُڑ گئی میری گناہوں کی سیاہی اُڑ گئی ظلمتِ شب جس طرح نورِ سحر کے سامنے
مانگتا ہوں جس قدر ملتا ہے کچھ اس سے سوا ہر دعا شرمندہ رہتی ہے اثر کے سامنے
اک جگہ پر دونوں محوِ استراحت ہی نہیں گھر بھی ہے صدیق کا حضرت کے گھر کے سامنے
تو نے کار آمد بنایا زندگی اور موت کو مقصد ایسا رکھ دیا نوعِ بشر کے سامنے
میں اسد صحنِ حرم میں بیٹھتا ہوں اس جگہ ہو جہاں سے گنبدِ خضریٰ نظر کے سامنے