بہت مرکز میں ہوں، جس دن سے اس محور میں ہوں میں مدینے میں ہوں اور جیسے زمانے بھر میں ہوں میں
خدایا اور ہو، نظارگی میں، اور نم ہو سرِ منظر ہیں آقا اور پس منظر میں ہوں میں
کوئی سمجھا گیا تھا بھیڑ میں اس طرح چلنا سو جس ٹھوکر میں ہونا تھا، اسی ٹھوکر میں ہوں میں
کہاں پھر دو گھروں کا ایک گھر، بس ایک ہی گھر خدا کے گھر میں ہوں میں، مصطفیٰ کےگھر میں ہوں میں
یہ آغے پیچھے ہر وقت آتے جاتے قافلے ہیں کوئی مانے نہ مانے ان میں سے اکثر میں ہوں میں
مگر وہ آسماں کیا ہے، کہاں ہے اور کیوں ہے زمیں، یوں ہے، کہ چادر ہے اور اس چادر میں ہوں میں
پلٹتا ہوں، پلٹنے والوں میں ہوں بھی نہیں پر کہ پہنچوں اور پھر پہنچوں، اسی چکر میں ہوں میں