آنے والو یہ تو بتاؤ شہر مدینہ کیسا ہے سر ان کے قدموں میں رکھ کرجھک کر جینا کیسا ہے
گنبد خضریٰ کے ساۓ میں بیٹھ کے تم جو آۓ ہو اس ساۓ میں رب کے آگے سجدہ کرنا کیسا ہے
دل، آنکھیں اور روح تمیاری لگتی ہیں سیراب مجھے ان کے در پہ بیٹھ کے آبِ زم زم پینا کیسا ہے
دیوانوں آنکھوں سے تمیاری اتنا پوچھ تو لینے دو وقت دعا روضے پہ ان کے آنسو بہانا کیسا ہے
اے جنت کے حقدارو مجھ منگتے کو یہ بتلاؤ ان کی سخا سے اپنا دامن بھر کر آنا کیسا ہے
لگ جاؤ سینے سے میرے طیبہ سے تم آۓ ہو دیکھ لوں میں بھی آپ کو اب یہ دوری سہنا کیسا ہے