پتھر ہٹا کے لاش سے زینبؑ نے دی صدا کیسے پڑے ہیں جسم کے ٹکڑے جُدا جُدا
ہاۓ ہاۓ میرے غریب کا کیا حال کردیا گھوڑوں سے لاشہ دشت میں پامال کر دیا پہچانوں کس طرح سے بدن سے ہے سر جُدا
پہچاننا تمہارے لیے بھی کٹھن ہوا دیکھا ہے پہلی بار جو زینبؑ کو بے رِدا آتی ہے زرم جلد بتا دو مجھے زرا
کیا لے گۓ ہیں لوٹ کے سب کچھ اشقیاء تن پر بچا ہے ماں کا یہ کُرتہ سِلا ہوا نکلے تھے جب خیام سے یہ حال تو نہ تھا
دیکھوں بندھی ہیں ہاتھوں میں میرے بھی رسیاں اب اور لو بہن کی نہ غربت کا امتحاں کچھ تو جواب دو مجھے صغریٰ کا واسطہ
پہچان لوں گی میں تمہیں آواز مجھ کو دو دم توڑتے جو دیکھا ہے کڑیل کوان کو آنکھوں میں اب بہن کی اُجالا نہیں رہا
کرتا رہا ہے ذبح کی کوشش کہاں کہاں خنجر کے ہیں کٹی ہوئی گردن پہ بھی نشاں کاٹا ہے کس طرح سے ستمگار نے گلا
آہستہ سے جواب دو ہے ساتھ اُس کی ماں کیا اب تمہارے پاس ہے معصوم بے زباں ننھا سا لاشہ کس کا یہ سینے پے ہے رکھا
وہ بھی تمہاری طرح سے زخمی نہ ہو کہیں دِل کو میرے یہ لگتا ہے موجود ہے یہیں آتی ہے ماں کے رونے کی نزدیک سے صدا
زینب پکاری میر تکلمؔ بصد ملال کیا مرتےوقت بھی میرےپردےکاتھاخیال ہے مٹھیوں میں کِس لیے یہ خاکِ کربلا