زمین پیاسی تھی اس سے پہلے ہواؤں میں تازگی نہیں تھی نہ آئنہ کوئی صاف گو تھا نہ خودشنا سی تھی اس سے پہلے کرخت لہجہ تھا موسموں کا سیاہی وقت روشنی سے خراج لیتی قدم نہیں تھے نشاں تھے خالی محبتّوں کے مکاں تھے خالی بہت اُداسی تھی اس سے پہلے غرور کی منڈیوں میں جہل و عناد کا کاروبار ہوتا عجیب رقصِ نگار ہوتا قبائے تن جس کو سمجھا جاتا وہ بے لباسی تھی اُس سے پہلے نظر بھی پتھر صدا بھی پتھر تمام پتھر کے آدمی تھے اَناؤں کے زر کے آدمی تھے سروں کے ہوتے ہوئے بھی بے سر کے آدمی تھے جنون تھا ظلم و بر بریّت تھی بدحواسی تھی اُس سے پہلے
وہ بادلوں کی طرح جو برسا تو پتھروں سے گلاب پھوٹے چراغ لیکر ہوا میں نکلا توریت سے آفتاب پھوٹے صداقتوں کا امین ٹھہرا شعور ٹھہرا یقین ٹھہرا وہ مسکرایا تو کِھل اٹھا چہرہء زمانہ حیات باسی تھی اُس سے پہلے