یہ التماس ہے یا رب! حضورؐ سے اپنے نہ انتظار کرائیں شعورؔ سے اپنے
ملا نہ اب بھی ہمیں حاضری کا پروانہ تو کیا کہیں گے دلِ ناصبور سے اپنے
ہمارے قلب میں فاران سے ہوئی روشن کلیم لاۓ تھے جو آگ طور سے اپنے
شبِ سیاہ میں جب کچھ نظر نہیں آتا وہ کوئی راہ دکھاتے ہیں نور سے اپنے
ہم اس نگاہ کی دریا دلی سے ہیں سرشار نوازتی ہے جو کیف و سرور سے اپنے
یہ ایک تیرہ و تاریک خاکداں تھا یہاں کیا انھوں نے اجالا ظہور سے اپنے
مسافروں نے رہ مستیم چھوڑی کیوں بھٹک رہے ہیں سفر میں قصور سے اپنے
دکھاۓ نامۃ اعمال کیا بھلا اپنا شعور خوش نہیں فسق و فجور سے اپنے