یہ گنبد خضریٰ ہےاسے جاں میں سمو لے دل کھول کہ اے دیدۃ پرنم یہاں رو لے
طیبہ کی گھٹا ٹوٹ کے برسے میرے مولا جب تک یہ زمیں روح کی سیراب نہ ہو لے
وارفتگی شوق کی اک اپنی ادا ہے کانٹے رہِ محبوب کے پلکوں میں پرو لے
شائد تیری قسمت میں حضوری کی گھڑی ہو اے دیدۃ بیدار ذرا دیر سے سو لے
سب کچھ ہے اسی کا یہ ہوائیں یہ فضائیں مدح شاہِ والا میں کوئی ہونٹ تو کھولے
یہ اشک ندامت بھی بڑی چیز ہیں احسن دربارِ رسالت میں زباں بولے نہ بولے