یہ بھی سفر عجیب تھا کیسی شعاع دی گئی پل میں نبیؐ کے شہر تک میری نظر چلی گئی
خواب میں رات کیا ہوا، میں ہی گداۓ خاص تھا عشقِ نبیؐ کے نور سے جھولی مری بھری گئی
کیسے پرو دیے گۓ ایک لڑی میں لعل و سنگ فخرِ حسب نسب گیا ذات برادری گئی
جب کبھی بعدِ مدعا صلِ علیٰ پڑھا گیا جو بھی طلب کیا گیا رحمتِ کاص کی گئی
ورنہ میں شرمسار تھا اپنے بدن کے ننگ پر سوزنِ عشقِ مصطفیٰؐ، خلعتِ چاک سے گئی
میرے ہنر ہی سے کہیں میرے نبیؐ خفا نہ ہوں عرصہ گزر گیا مگر نعت نہیں کہی گئی