یادِ شہِ بطحا میں جو اَشک بہاتے ہیں گھر بیٹھ کے طیبہ کا وُہ لُطف اُٹھاتے ہیں
جو یادِ مدینہ کو سینوں میں بَساتے ہیں جینے کا مزہ ایسے عُشّاق ہی پاتے ہیں
کِس پیار سے اُمّت کے وہ ناز اُٹھاتے ہیں عصیاں کو غلاموں کے اَشکوں سے مٹاتے ہیں
وہ اپنے غلاموں کو دوزخ سے بچاتے ہیں اللہ کی رحمت سے جنّت میں بساتے ہیں
سرکار کِھلاتے ہیں سرکار پِلاتے ہیں سلطان و گدا سب کو سرکار نبھاتے ہیں
روتے ہیں تڑپتے ہیں یہ آپ کے دیوانے سرکار مدینے کو پھر قافِلے جاتے ہیں
بِپھری ہوئی موجوں میں جب اُنکو پکارا ہے طُوفان سے کِشتی کو وہ پَار لگاتے ہیں
جتنے بھی ہیں دیوانے ان سب کو بُلا لیجے ارمان غریبوں کو طیبہ کے رُلاتے ہیں
یہ آپ کی مرضی ہے جن پر بھی کرم کردیں جنّت کی سَنَد دینے روضے پہ بُلاتے ہیں
وہ حَشر کے مَیداں میں دامن میں چُھپائیں گے ہم سب کے یَہاں پر بھی جو عَیْب چُھپاتے ہیں
غم مُجھ کو مدینے کا سرکار عطا کردو! آزار زمانے کے بیکار رُلاتے ہیں
قُربان! سرِ محشر ہم پیاس کے ماروں کو بھر بھر کے وہ کوثر کے کیا جَام پِلاتے ہیں
عَرصہ ہُوا اے آقا! طیبہ سے جُدائی کو عطارؔ کو کب جاناں ! پھر در پہ بلاتے ہیں