یادِ مصطفیٰ ایسی بس گئی ہے سینے میں جسم ہو کہیں اپنا دل تو ہے مدینے میں
میرے کملی والے کا گھر تو ہے مدینے میں ہاں مگر وہ رہتے ہیں عاشقوں کے سینے میں
مشک میں نہ عنبر ہے ارو نہ گل تر میں ہم نے جو مہک پائی آقا کے پسینے میں
کون سی جگہ ان کے عاشقوں سے خالی ہے ہر جگہ ہیں پروانے شمع ہے مدینے میں
عشق سرور عالم جلوہ گر ہے سینے میں ہم کو بھی بلا لیجئے مصطفیٰ مدینے میں
فکر کیا تلاطم کا، خوف کیا ہے طوفاں کا نامِ مصطفیٰ لکھ کر ڈال دے سفینے میں
کون ہے یہ دیوانہ کس کا ہے یہ دیوانہ حشر میں بھی کہتا ہے جانا ہے مدینے میں
ایک دن میں جاؤں گا سر کے بل مدینے میں دل میں ہے میرے حسرت، مر جاؤں مدینے میں
کون تیرے آقا ہیں پوچھا تو خضر بولے کالی کملی والے ہیں رہتے ہیں مدینے میں
بعد میرے مرنے کے دوست میرے یوں بولے آدمی جو اچھا تھا مر گیا مدینے میں
رازؔ وہ بلائیں گے یہ یقین ہے مجھ کو جانے کون سے سن میں جانے کس مہینے میں